Fatawa Rahimiyah
Fatawa Rahimiyah Ulma Se Doori Par Azaab ki Waid
♥
♥
فتاوی رحیمیہ میں ہے: اپنے تمام معاملات علماء کرام سے حل کروائیں اور علماء کرام جو ہدایت دیں اس کے مطابق عمل کریں۔
حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں۔۔۔ جب تم علماء کے پاس جاؤ اور وہ تم سے جو کہیں تم اسے قبول نہ کرو تو تمہارا ان کے پاس حاضر ہونا تم پر حجت بنےگا، اس کا گناہ تم پر ایسا ہوگا جیسا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے او آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا نہ مانتے۔ (الفح الربانی)
علماء سے رابطہ نہ رکھنے پر سخت وعید
علماء سے رابطہ نہ رکھنے اور ان کی ہدایت پر عمل نہ کرنے کے سلسلہ میں حدیث میں بہت سخت وعید آئی ہے: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت پر عنقریب ایسا زمانہ آئےگا کہ لوگ علماء اور فقہاء سے بھاگیں گے پس اللہ تعالیٰ ان کو تین بلاؤں میں مبتلا کرےگا (1) ان کے کسب (کمائی) سے برکت اٹھ جائےگی (2) اللہ تعالیٰ ان پر ظالم بادشاہ مسلط کردےگا (3) ایسے لوگ دنیا سے بےایمان جائیں گے۔ (درۃ الناصحین صفحہ 29-30 جلد1)
ایک اور حدیث میں ہے : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی اور بازاروں کی عمارتوں کو بلند اور غالب کرنے لگےگی اور مال ودولت پر نکاح کرنے لگےگی (یعنی نکاح میں دینداری اور تقویٰ کے مال داری کو دیکھا جائےگا) تو حق تعالیٰ شانہ ان پر چار قسم کے عذاب مسلط فرمادیں گے (1) قحط سالی ہو جائے گی (2) بادشاہ کی طرف سے مظالم ہونے لگیں گے (3) حکام خیانت کرنے لگیں گے (4) دشمنوں کے پے درپے حملے ہوں گے۔ (حاکم) آج کل ان عذابوں میں کون سا عذاب نہیں ہے جو امت پر مسلط نہیں لیکن وہ اپنی خوشی سے ان کے اسباب کو اختیار کریں تو پھر شکایت کیا؟ (الاعتدال نمبر153)
لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ دل سے علماء کی عزت کریں، ان کی صحبت سے فیض حاصل کریں، ان کی شان میں کوئی کلمہ بے ادبی اور گستاخی کا نہ کہیں اور اگر کسی سے گستاخی اور بے ادبی ہو گئی ہو تو اپنے اس گناہ پر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرے استغفار کرے، ایک زمانہ سے اس معاملہ میں بڑی کوتاہی اور علماء سے بے اعتنائی برتی جارہی ہے۔
امام خطابیؒ کے زمانہ کا حال:
امام خطابی رحمہ اللہ اپنے زمانہ کا حال بیان فرماتے ہیں: اور ابو سلیمان خطابی نے کہا ہے کہ تیری صحبت اور تیری شاگردی کی رغبت کرنے والوں کو چھوڑدے کیونکہ ان میں تیرا کوئی دوست نہیں ہے، اور نہ رفیق ہے، ظاہر کے بھائی ہیں باطن کے دشمن ہیں، جب تم سے ملتے ہیں تعریف کرتے ہیں اور جب تم ان سے جدا ہوجاتے ہو تو غیبت کرتے ہیں، جو کوئی ان میں سے تمہارے پاس آتا ہےوہ تمہارانگہبان ہوتا ہے اور جب تمہارے پاس سے چلا جاتا ہے تو تمہاری بدگوئی کرتا ہے، لہذا اپنے پاس ان کے جمع ہونے اور تمہارے سامنے خوشامد کرنے سے دھوکانہ کھانا کئونکہ ان کی غرض میں ذراکوتاہی کی تو پھر وہ تمہارے بڑے سخت دشمن ہیں اور تمہارے پاس اپنی آمدورفت کو تم پر احسان سمجھتے ہیں اور اس کو تمہارے اوپر ایک واجب حق سمجھتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ تم اپنی آبرو اور اپنا دین ان کے لئے کھودو اور ان کا ادنیٰ فرمانبردار بن جاؤ اس کے بعد کہ تم واقع میں حاکم اور سردارتھے۔
لہذا علماء کی عظمت کو سمجھیں اور ان کی صحبت کو غنیمت جانیں او اکتساب فیض کی نیت سے حاضر ہوا کریں اور کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو جس سے ان کو تکلیف پہنچے اور ان کو ستانے اور بدنام کرنے کا تو دل میں خیال بھی نہ لائیں، یہ بہت خطرناک ہے، حدیث قدسی میں ہے : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں جو میرے کسی مقبول بندے کو ستائےگا میں نے اس کے لئے اعلان جانگ کردیا۔
(فتاویٰ رحیمیہ، جلد سوم، حقوق و معاشرت صفحہ 217-218)
♥
Mazeed : Fatawa Rahimiyah | Urdu Article